ترک شوق شراب کیا کرتے
زندگی کو خراب کیا کرتے
جبر ذوق نظر پہ کرتے رہے
حسن کو بے حجاب کیا کرتے
جب تھی بدلی ہوئی نظر ان کی
پھر سوال و جواب کیا کرتے
ہے بہ ہر شکل ایک ہی جلوہ
ہم کوئی انتخاب کیا کرتے
گر بساتے نہ جا کے ویرانہ
اور خانہ خراب کیا کرتے
بات کا رخ بدل دیا آخر
ہم انہیں لا جواب کیا کرتے
دل تھا احساس مند پہلو میں
حسن سے اجتناب کیا کرتے
ذہنیت اپنی جو بدل نہ سکیں
اشکؔ وہ انقلاب کیا کرتے

غزل
ترک شوق شراب کیا کرتے
سید محمد ظفر اشک سنبھلی