EN हिंदी
ترک کر اپنے ننگ و نام کو ہم | شیح شیری
tark kar apne nang-o-nam ko hum

غزل

ترک کر اپنے ننگ و نام کو ہم

انشاءؔ اللہ خاں

;

ترک کر اپنے ننگ و نام کو ہم
جاتے ہیں واں فقط سلام کو ہم

خم کے خم تو لڑھائی یوں ساقی
اور یوں ترسیں ایک جام کو ہم

میں کہا میں غلام ہوں بولا
جانیں ہیں خوب اس غلام کو ہم

دیر و کعبہ کے بیچ ہیں ہنستے
خلق کے دیکھ اژدہام کو ہم

متکلم ہیں خاص لوگوں سے
کرتے ہیں کب خطاب عام سے ہم

روٹھنے میں بھی لطف ہے انشاؔ
صبح گر روٹھے وہ تو شام کو ہم