ترک الفت کا کچھ خیال بھی ہے
یہی ممکن مگر محال بھی ہے
کیا کھلے عقدۂ حیات و ممات
ہر جواب اک نیا سوال بھی ہے
ورنہ کیا شے یہ گردش افلاک
اس میں شامل کسی کی چال بھی ہے
کچھ مرا دل بھی ہے جنوں آثار
کچھ تری آنکھ کا کمال بھی ہے
اس میں جینے کا بھی ہزار امکان
اس میں مرنے کا احتمال بھی ہے
دل بھی ہے اندرون سینہ عذاب
سر سردوش اک وبال بھی ہے
ہر نظر صورتوں کا ایک طلسم
ہر قدم خواہشوں کا جال بھی ہے
ہر خبر انکشاف بے خبری
ہر نفس عرصۂ زوال بھی ہے
تجھ سے دوری بھی ہے نشاط افزا
تیری قربت میں اک ملال بھی ہے
صورت سبزہ آرزوئے وصال
سر کشیدہ بھی پائمال بھی ہے
کن تضادات میں گھرا ہوں حبیبؔ
زندگی ہجر بھی وصال بھی ہے

غزل
ترک الفت کا کچھ خیال بھی ہے
قاضی حبیب الرحمن