طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر
ہماری آنکھ کھلی ہے مقام حیرت میں
اگر خلل ہے تو زاہد مرے دماغ میں ہے
ہزار شکر نہیں ہے فتور نیت میں
بلند و پست کی اس کے کچھ انتہا ہی نہیں
عجیب چیز ہے انسان بھی حقیقت میں
یہ بزم غیر ہے کیفیؔ کدھر گئے ہیں حواس
کہاں تم آ گئے کیا آ گئی طبیعت میں
غزل
طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر (ردیف .. ن)
کیفی حیدرآبادی