EN हिंदी
طرب سے ہو آیا ہوں اور یاس کی تہہ تک ڈوب چکا ہوں | شیح شیری
tarab se ho aaya hun aur yas ki tah tak Dub chuka hun

غزل

طرب سے ہو آیا ہوں اور یاس کی تہہ تک ڈوب چکا ہوں

حمید نسیم

;

طرب سے ہو آیا ہوں اور یاس کی تہہ تک ڈوب چکا ہوں
دور ہوں اپنی کھوج سے اب تک کب سے خود کو ڈھونڈ رہا ہوں

میں ہوں یہ گھٹتا پھیلتا سایہ میں یہ کیسے ہو سکتا ہوں
وقت کے سیال آئینے میں کون ہے کس کو دیکھ رہا ہوں

دل کے کسی پنہاں گوشے میں انجانی کوئی ہار چھپی ہے
جان تپاک ہیں تیری باتیں میں بے بات بھٹک جاتا ہوں

دیکھتے دیکھتے تیرا چہرہ اور اک چہرہ بن جاتا ہے
اک مانوس ملول سا چہرہ کب دیکھا تھا بھول گیا ہوں

اک لمحے نے مجھ سے کہا تھا تو ہی ازل ہے تو ہی ابد ہے
لمحہ بیتا بات گئی اس خواب سے کب کا چونک اٹھا ہوں

دیدۂ وا کے دمکتے خوابو میرے ساتھ چلو گے کب تک
تم کہ وفور رنگ و نوا ہو میں کہ شکست دل کی صدا ہوں

خاک اڑتی ہے لب بوسی کو تارے آنکھ کو چھو لیتے ہیں
قرب کا خواہاں مجھ سے زمانہ میں تنہا ہوں میں تنہا ہوں