EN हिंदी
طرب خانوں کے نغمے غم کدوں کو بھا نہیں سکتے | شیح شیری
tarab-KHanon ke naghme gham-kadon ko bha nahin sakte

غزل

طرب خانوں کے نغمے غم کدوں کو بھا نہیں سکتے

قتیل شفائی

;

طرب خانوں کے نغمے غم کدوں کو بھا نہیں سکتے
ہم اپنے جام میں اپنا لہو چھلکا نہیں سکتے

چمن والے خزاں کے نام سے گھبرا نہیں سکتے
کچھ ایسے پھول بھی کھلتے ہیں جو مرجھا نہیں سکتے

نگاہیں ساتھ دیتی ہیں تو سنتے ہیں وہ افسانے
جو پلکوں سے جھلکتے ہیں زباں پر آ نہیں سکتے

اب آ کر لاج بھی رکھ لے خزاں دیدہ بہاروں کی
یہ دیوانے فسانوں سے تو جی بہلا نہیں سکتے

کچھ ایسی دکھ بھری باتیں بھی ہوتی ہیں محبت میں
جنہیں محسوس کرتے ہیں مگر سمجھا نہیں سکتے

چلو پابندی فریاد بھی ہم کو گوارا ہے
مگر وہ گیت جو ہم مسکرا کر گا نہیں سکتے

ہمیں پتوار اپنے ہاتھ میں لینے پڑیں شاید
یہ کیسے ناخدا ہیں جو بھنور تک جا نہیں سکتے