طرب آفریں ہے کتنا سر شام یہ نظارا
ترے ہونٹ پر شفق ہے مری آنکھ میں ستارا
کیا میں نے جب کسی کے رخ و زلف سے کنارا
کبھی صبح نے صدا دی کبھی شام نے پکارا
گل و غنچہ اصل میں ہیں تری گفتگو کی شکلیں
کبھی کھل کے بات کہہ دی کبھی کر دیا اشارا
ترا نام لے کے جاگے تجھے یاد کر کے سوئے
یوں ہی ساری عمر کاٹی یوں ہی کر لیا گزارا
تجھے باغباں ہے خطرہ اسی برق کی چمک سے
کبھی تو نے یہ نہ سوچا کہ ہے گل بھی اک شرارا
یہ عدم وجود کیا ہے ترا ناز ہے مصور
کسی نقش کو مٹایا کسی نقش کو ابھارا
بھلا ہم سلامؔ آخر نہ اسیر ہوں گے کب تک
کہ جہاں ہے دام ان کا وہیں آشیاں ہمارا

غزل
طرب آفریں ہے کتنا سر شام یہ نظارا
سلام سندیلوی