تقسیم تذکرے کو میں کیسے رقم کروں
تنہائیوں میں بیٹھوں کہ آنکھوں کو نم کروں
حرص و ہوس کے ساتھ بھی فانی ہے زندگی
کیا اس کے واسطے کوئی ساماں بہم کروں
بڑھنے لگا ہے سلسلۂ اعتماد پھر
اس سلسلے کو اور بڑھاؤں کہ کم کروں
تو پھر سے آ گیا ہے مری زندگی میں دوست
اس بات کا میں لطف اٹھاؤں کہ غم کروں
مقصد ہے میرے سامنے اپنی شناخت کا
پامال راستوں کو میں کیوں ہم قدم کروں
غزل
تقسیم تذکرے کو میں کیسے رقم کروں
پون کمار