EN हिंदी
تقسیم تذکرے کو میں کیسے رقم کروں | شیح شیری
taqsim tazkire ko main kaise raqam karun

غزل

تقسیم تذکرے کو میں کیسے رقم کروں

پون کمار

;

تقسیم تذکرے کو میں کیسے رقم کروں
تنہائیوں میں بیٹھوں کہ آنکھوں کو نم کروں

حرص و ہوس کے ساتھ بھی فانی ہے زندگی
کیا اس کے واسطے کوئی ساماں بہم کروں

بڑھنے لگا ہے سلسلۂ اعتماد پھر
اس سلسلے کو اور بڑھاؤں کہ کم کروں

تو پھر سے آ گیا ہے مری زندگی میں دوست
اس بات کا میں لطف اٹھاؤں کہ غم کروں

مقصد ہے میرے سامنے اپنی شناخت کا
پامال راستوں کو میں کیوں ہم قدم کروں