EN हिंदी
تقدیر کی گردش کیا کم تھی اس پر یہ قیامت کر بیٹھے | شیح شیری
taqdir ki gardish kya kam thi is par ye qayamat kar baiThe

غزل

تقدیر کی گردش کیا کم تھی اس پر یہ قیامت کر بیٹھے

شکیل بدایونی

;

تقدیر کی گردش کیا کم تھی اس پر یہ قیامت کر بیٹھے
بے تابئ دل جب حد سے بڑھی گھبرا کے محبت کر بیٹھے

آنکھوں میں چھلکتے ہیں آنسو دل چپکے چپکے روتا ہے
وہ بات ہمارے بس کی نہ تھی جس بات کی ہمت کر بیٹھے

غم ہم نے خوشی سے مول لیا اس پر بھی ہوئی یہ نادانی
جب دل کی امیدیں ٹوٹ گئیں قسمت سے شکایت کر بیٹھے