تقدیر کی گردش کیا کم تھی اس پر یہ قیامت کر بیٹھے
بے تابئ دل جب حد سے بڑھی گھبرا کے محبت کر بیٹھے
آنکھوں میں چھلکتے ہیں آنسو دل چپکے چپکے روتا ہے
وہ بات ہمارے بس کی نہ تھی جس بات کی ہمت کر بیٹھے
غم ہم نے خوشی سے مول لیا اس پر بھی ہوئی یہ نادانی
جب دل کی امیدیں ٹوٹ گئیں قسمت سے شکایت کر بیٹھے

غزل
تقدیر کی گردش کیا کم تھی اس پر یہ قیامت کر بیٹھے
شکیل بدایونی