تقدیر ہو خراب تو تدبیر کیا کرے
ہاتھوں میں دم اگر نہیں شمشیر کیا کرے
مجھ کو اندھیروں میں ہی بھٹکنا ہے عمر بھر
جب آنکھ ہی نہیں ہے تو تنویر کیا کرے
آزاد ہو گیا ہے وہ دنیا کی قید سے
اس کا بلاوا آیا تو زنجیر کیا کرے
دولت ہے میرے ہاتھ میں دل کو سکوں نہیں
چین اور قرار کے لئے جاگیر کیا کرے
گم ہو گیا شکار نگاہوں کے سامنے
ٹوٹی ہو جب کمان تو پھر تیر کیا کرے
غزل
تقدیر ہو خراب تو تدبیر کیا کرے
ارون کمار آریہ