تپش سے بھاگ کر پیاسا گیا ہے
سمندر کی طرف صحرا گیا ہے
کنواں موجود ہے جل بھی میسر
وہ میرے گھر سے کیوں تشنہ گیا ہے
دوبارہ روح اس میں پھونک دو تم
بدن جو پھر اکیلا آ گیا ہے
زماں اپنی روش پر تو ہے قائم
مگر لمحات میں فرق آ گیا ہے
سفر میں تازہ دم ہوگا وہ کیسے
جو گھر ہی سے تھکا ماندہ گیا ہے
بنا ہوگا خس و خاشاک سے وہ
جو نبھ جلتا ہوا دیکھا گیا ہے
مجھے لہروں کی کشتی پر بٹھا کر
بھنور کی کھوج میں دریا گیا ہے
زمیں سے بھی توقع کچھ ہے ایسی
دماغ چرخ جب چکرا گیا ہے
جو اترا عرش کا اک ایک طبقہ
زمیں پر دائرہ بنتا گیا ہے
نہ فکر ورطہ تھی اس کو ذرا بھی
وہ کشتی زیست کی کھیتا گیا ہے
فگارؔ اس میں وجود اس کا ملے گا
جو جویاں بحر کا قطرہ گیا ہے
غزل
تپش سے بھاگ کر پیاسا گیا ہے
جگدیش راج فگار