ٹپکتے شعلوں کی برسات میں نہاؤں گا
اب آ گیا ہوں تو اس شہر سے نہ جاؤں گا
کشش ہے گھر میں نہ باہر کی رونقیں باقی
یونہی رہا تو کہاں جا کے مسکراؤں گا
یہ گیلی گیلی سی خوشبو یہ نرم نرم نگاہ
تمہارے پاس رہا میں تو بھیگ جاؤں گا
بسا سکو تو بسا لو مجھے خیالوں میں
کہ اس دیار میں دوبارہ میں نہ آؤں گا
قدم سمیٹ کے چلنا بھی سیکھ جاؤ گے
تمہیں میں گاؤں کی پگڈنڈیاں دکھاؤں گا
چلا تھا ڈھونڈنے میں زندگی کی بنیادیں
پتہ نہ تھا کہ خود اپنا پتہ نہ پاؤں گا
نہ ہوں گا میں تو مری داستان ہوگی نظرؔ
زمیں پہ دھوپ کی صورت میں پھیل جاؤں گا
غزل
ٹپکتے شعلوں کی برسات میں نہاؤں گا
بدنام نظر