تنور وقت کی حدت سے ڈر گئے ہم بھی
مگر تپش میں تپے تو نکھر گئے ہم بھی
جہاں پہنچ کے مسافر کے رخ بدلتے ہیں
رہ حیات کے اس موڑ پر گئے ہم بھی
جلا دیا تھا سفینہ اتر کے ساحل پر
جنون فتح میں کیا کیا نہ کر گئے ہم بھی
جدید رنگ سے مدھم ہوا نہ رنگ کہن
قدیم رنگ میں وہ رنگ بھر گئے ہم بھی
قدم قدم پہ ستم سہ کے جی رہے تھے جسے
اسی حیات کی بانہوں میں مر گئے ہم بھی
نہ کچھ جنون تجسس کا پوچھیے عالم
کہاں کہاں سے نہ کوثرؔ گزر گئے ہم بھی
غزل
تنور وقت کی حدت سے ڈر گئے ہم بھی
کوثر سیوانی