تنہائیوں کی گود میں پل کر بڑا ہوا
بچپن سے اپنے آپ سنبھل کر بڑا ہوا
غیروں کو اپنا مان کے جیتا رہا ہوں میں
اس راہ پل صراط پہ چل کر بڑا ہوا
میں نے کبھی بھی رات سے شکوہ نہیں کیا
ہر شب کسی چراغ سا جل کر بڑا ہوا
پتھر سے کوئی واسطہ مطلب نہ تھا مگر
ہر آئنے کی آنکھ میں کھل کر بڑا ہوا
مخمل کی چادروں کا مجھے کیا پتہ کہ میں
کانٹوں کے بستروں کو مسل کر بڑا ہوا
غزل
تنہائیوں کی گود میں پل کر بڑا ہوا
ناصر راؤ