تنہائی ملی مجھ کو ضرورت سے زیادہ
پڑھتی ہیں کتابیں مجھے وحشت سے زیادہ
جو مانگ رہے ہو وہ مرے بس میں نہیں ہے
درخواست تمہاری ہے ضرورت سے زیادہ
ممکن ہے مری سانس اکھڑ جائے کسی پل
یہ راستہ ہے میری مسافت سے زیادہ
آئے ہیں پڑوسی مرے گھر لے کے شکایت
باتوں میں وہ تلخی ہے کہ نفرت سے زیادہ
یہ اطلس و کم خواب دکھاتے ہو عبث تم
شاعر کو نہیں چاہیئے شہرت سے زیادہ
غزل
تنہائی ملی مجھ کو ضرورت سے زیادہ
جمال اویسی