EN हिंदी
تنہائی کا روگ نہ پال | شیح شیری
tanhai ka rog na pal

غزل

تنہائی کا روگ نہ پال

اعجاز طالب

;

تنہائی کا روگ نہ پال
گھر سے باہر پاؤں نکال

جن میں ہو زہریلا پن
ایسی باتیں ہنس کر ٹال

شہر میں وحشی آئے ہیں
چل جنگل میں ڈیرا ڈال

اندر سے ہیں بکھرے بکھرے
اور باہر سے سب خوش حال

آنکھیں سب کی فکر زدہ
کیسے بیتے گا یہ سال

طالبؔ پیاس بجھے کیسے
ایک ندی اور سو گھڑیال