EN हिंदी
تنہائی کا غم روح کے اندر سے نکالوں | شیح شیری
tanhai ka gham ruh ke andar se nikalun

غزل

تنہائی کا غم روح کے اندر سے نکالوں

ماہر عبدالحی

;

تنہائی کا غم روح کے اندر سے نکالوں
آواز کوئی دے تو قدم گھر سے نکالوں

دنیا اسے پوجے گی بصد حسن عقیدت
میں اپنی شباہت کو جو پتھر سے نکالوں

کھو جاؤں کہیں تیرہ‌ خلاؤں میں تو کیا ہو
خود کو جو ترے درد کے محور سے نکالوں

جو دوست نظر آتے ہیں بن جائیں گے دشمن
کیا منہ سے نہ سچ بات بھی اس ڈر سے نکالوں

حساس ہو دنیا تو جو نشتر سے ہے مخصوص
وہ کام بھی میں برگ گل تر سے نکالوں

دشوار سہی پھر بھی کوئی صلح کا پہلو
حالات کے بگڑے ہوئے تیور سے نکالوں

صدیوں سے لگی پیاس کو ماہرؔ جو بجھا دے
وہ جرعۂ زہراب سمندر سے نکالوں