EN हिंदी
تنہا ترا خدا نہیں اے آشنائے راز | شیح شیری
tanha tera KHuda nahin ai aashna-e-raaz

غزل

تنہا ترا خدا نہیں اے آشنائے راز

متین نیازی

;

تنہا ترا خدا نہیں اے آشنائے راز
تیرا بھی کارساز ہے میرا بھی کارساز

کیا کہیے رہ گزار محبت کی داستاں
جو دشمن سکوں ہے وہ ہے میرا چارہ ساز

اے جان مدعا مری جنت مری حیات
تیرا خیال تیری تمنا مری نماز

نغمے بھی ہیں پسند مجھے سوز بھی عزیز
سرمایۂ وفا ہے مری زندگی کا ساز

کیا دن دکھائے دیکھیے انساں کی سرکشی
سجدوں سے پا رہا ہوں جبینوں کو بے نیاز

پیغام زندگی ہے محبت کی ہر ادا
یعنی گناہ گار محبت ہے پاکباز

انسانیت ہے مرگ مسلسل سے ہمکنار
مانگو دعا حیات رہے غم سے سرفراز

اب تک ہیں یاد مجھ کو وہ پیہم تجلیاں
کتنا نظر نواز تھا ہر منظر حجاز

مجھ کو متینؔ ناز ہے اپنے نصیب پر
میں بندۂ نصیر ہوں میں خادم نیاز