EN हिंदी
تنہا ہوئے خراب ہوئے آئنہ ہوئے | شیح شیری
tanha hue KHarab hue aaina hue

غزل

تنہا ہوئے خراب ہوئے آئنہ ہوئے

ندا فاضلی

;

تنہا ہوئے خراب ہوئے آئنہ ہوئے
چاہا تھا آدمی بنیں لیکن خدا ہوئے

جب تک جیے بکھرتے رہے ٹوٹتے رہے
ہم سانس سانس قرض کی صورت ادا ہوئے

ہم بھی کسی کمان سے نکلے تھے تیر سے
یہ اور بتا ہے کہ نشانے خطا ہوئے

پر شور راستوں سے گزرنا محال تھا
ہٹ کر چلے تو آپ ہی اپنے سزا ہوئے