تنگ و محدود بہت حسن نظر تھا پہلے
زلف و رخسار پہ موقوف ہنر تھا پہلے
آنے جانے کا سروکار کہاں سے آیا
کوئی جادہ نہ مسافر نہ سفر تھا پہلے
اب بھی گردش میں مری دھوپ رہا کرتی ہے
یہی سایہ جو ادھر ہے یہ ادھر تھا پہلے
در و دیوار سے آزاد بیاباں پھر ہو
اپنے شوریدہ سروں کا یہی گھر تھا پہلے
مری تلوار پہ ہے رزم پرانی لکھی
مرے خاموش لہو میں بھی بھنور تھا پہلے
یہ تصور بھی پلا آب و ہوا میں میری
اس زمیں پر نہ کھڑا ایسا شجر تھا پہلے
غزل
تنگ و محدود بہت حسن نظر تھا پہلے
سید رضا