EN हिंदी
تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم | شیح شیری
tamkin hai aur husn-e-gareban hai aur hum

غزل

تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم

دل شاہجہاں پوری

;

تمکیں ہے اور حسن گریباں ہے اور ہم
خودداریوں کا خواب پریشاں ہے اور ہم

ساحل سے دور غرق ہوئی کشتئ امید
موجوں کو چھیڑتا ہوا طوفاں ہے اور ہم

کس نے حریم ناز کا پردہ الٹ دیا
نظروں میں ایک شعلۂ لرزاں ہے اور ہم

تیری تجلیاں ہیں جہاں تک نظر گئی
اسرار کائنات کا عرفاں ہے اور ہم

بالیں سے کون محو تبسم گزر گیا
اب ہر نظر بہار بد اماں ہے اور ہم

وارفتگیٔ عشق نے پہنچا دیا کہاں
خاموش اک فضائے بیاباں ہے اور ہم

اے دلؔ یہ سن رہے ہیں کہ دنیا بدل گئی
اب تک انہیں حدوں میں بیاباں ہے اور ہم