تہمید ستم اور ہے تکمیل جفا اور
چکھنے کا مزا اور ہے پینے کا مزا اور
دونوں ہی بنائے کشش و جذب ہیں لیکن
نغموں کی صدا اور ہے نالوں کی صدا اور
اے فطرت غم زیست ہی کیا کم تھی مصیبت
نازل ہوئی اس پر یہ محبت کی بلا اور
ٹکرا کے وہیں ٹوٹ گئے شیشہ و ساغر
مے خواروں کے جھرمٹ میں جو ساقی نے کہا اور
وہ خود نظر آتے ہیں جفاؤں پہ پشیماں
کیا چاہیے اب تم کو شکیلؔ اس کے سوا اور
غزل
تہمید ستم اور ہے تکمیل جفا اور
شکیل بدایونی