تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں
بہاریں بہت یاں خزاں ہو گئی ہیں
خبر پس روؤں سے تم ان کی نہ پوچھو
جو روحیں عدم کو رواں ہو گئی ہیں
نکالی ہیں جو ہم نے اوج سخن سے
زمینیں وہ سب آسماں ہو گئی ہیں
انہیں فرض ہے تیر کا کس کے سجدہ
جو میوے کی شاخیں کماں ہو گئی ہیں
وہ بت قطع کرتا ہے زلفوں کو شاید
نزاکت پر اس کی گراں ہو گئی ہیں
ٹک اے باغباں رحم کر بلبلوں پر
خزاں میں یہ بے آشیاں ہو گئی ہیں
میں رویا ہوں یاں تک جدائی میں تیری
کہ آنکھیں مری ناوداں ہو گئی ہیں
جدائی میں اس زلف کی مثل شانہ
مری انگلیاں استخواں ہو گئی ہیں
رخ اس کا میں اے مصحفیؔ کیوں کہ دیکھوں
نگاہیں مری بد گماں ہو گئی ہیں
غزل
تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں
مصحفی غلام ہمدانی