تماشائی بنے رہیے تماشا دیکھتے رہیے
یہی دنیا ہے تو کب تک یہ دنیا دیکھتے رہیے
اگر اپنے بکھرنے کا نظارہ کر نہیں سکتے
تو یہ کیجے کہ وہ روشن ستارہ دیکھتے رہیے
کہ یوں منظر بدل جانے سے حیرانی نہیں ہوتی
اگر گلشن میں رہنا ہو تو صحرا دیکھتے رہیے
میاں کیا آئینے کو کھیلنے کی چیز سمجھے تھے
اب اپنے آپ کو قسطوں میں بٹتا دیکھتے رہیے
ادھر تم پیاس کی حرمت کا قصہ چھیڑ بیٹھے ہو
ادھر موسم یہ کہتا ہے کہ دریا دیکھتے رہیے
غزل
تماشائی بنے رہیے تماشا دیکھتے رہیے
اقبال اشہر