تمام عمر کی تنہائیوں پہ بھاری تھی
وہ ایک شام ترے ساتھ جو گزاری تھی
افق پہ لکھتا رہا آفتاب تحریریں
مگر بیاض زمیں روشنی سے عاری تھی
سفیر صبح کی آہٹ پہ ہو گئی بیدار
غنودگی میں جو خوابیدہ شب خماری تھی
اسی نے کر دیا پیوست پیٹھ میں خنجر
وہ شخص جس کی رفاقت سے پیٹھ بھاری تھی
دل و دماغ نے پھر حاشیے تراش لیے
کئی دنوں سے طبیعت میں ناگواری تھی
جو بات ترک تعلق کے موڑ تک پہنچی
خطا تمہاری نہیں تھی خطا ہماری تھی
جواب دے دیئے سالمؔ حیات نے مجھ کو
مگر سوالیہ اک اک جواب داری تھی
غزل
تمام عمر کی تنہائیوں پہ بھاری تھی
سالم شجاع انصاری