تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
وہ ایک شب جو تری یاد میں گزاری ہے
سنا رہا ہوں بڑی سادگی سے پیار کے گیت
مگر یہاں تو عبادت بھی کاروباری ہے
نگاہ شوق نے مجھ کو یہ راز سمجھایا
حیا بھی دل کی نزاکت پہ ضرب کاری ہے
مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے
یہ کس نے چھیڑ دیا رخصت بہار کا گیت
ابھی تو رقص نسیم بہار جاری ہے
خفا نہ ہو تو دکھا دیں ہم آئنہ تم کو
ہمیں قبول کہ ساری خطا ہماری ہے
جہاں پناہ محبت جناب شبنمؔ ہیں
زبان شعر میں فرمان شوق جاری ہے
غزل
تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
شبنم رومانی