EN हिंदी
تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا | شیح شیری
tamam umr azabon ka silsila to raha

غزل

تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا

جاں نثاراختر

;

تمام عمر عذابوں کا سلسلہ تو رہا
یہ کم نہیں ہمیں جینے کا حوصلہ تو رہا

گزر ہی آئے کسی طرح تیرے دیوانے
قدم قدم پہ کوئی سخت مرحلہ تو رہا

چلو نہ عشق ہی جیتا نہ عقل ہار سکی
تمام وقت مزے کا مقابلہ تو رہا

میں تیری ذات میں گم ہو سکا نہ تو مجھ میں
بہت قریب تھے ہم پھر بھی فاصلہ تو رہا

یہ اور بات کہ ہر چھیڑ لاابالی تھی
تری نظر کا دلوں سے معاملہ تو رہا