تمام تر اسی خانہ خراب جیسا ہے
مرے لہو کا نشہ بھی شراب جیسا ہے
نہا رہا ہوں میں اس کے بدن کی کرنوں میں
وہ آدمی ہے مگر ماہتاب جیسا ہے
کروں تلاش جواہر تو ریت ہاتھ آئے
سمندروں کا چلن بھی سراب جیسا ہے
جلا گیا مجھے اپنے بدن کی ٹھنڈک سے
وہ جس کا رنگ دہکتے گلاب جیسا ہے
قتیلؔ کام و دہن اپنا ساتھ دیں کہ نہ دیں
وفا کا ذائقہ لیکن شباب جیسا ہے
غزل
تمام تر اسی خانہ خراب جیسا ہے
قتیل شفائی