تمام شہر میں اس جیسا خستہ حال نہ تھا
مگر وہ شخص کہ پھر بھی کوئی ملال نہ تھا
یہ اور بات میں اپنی انا میں قید رہا
وگرنہ اس کا پگھلنا تو کچھ محال نہ تھا
بچھڑ گیا ہے تو یہ کہہ کے دل کو بہلاؤں
وجود اس کا مرے حق میں نیک فال نہ تھا
سمجھ رہا تھا محافظ جسے میں برسوں سے
مجھی کو قتل کرے گا یہ احتمال نہ تھا
سمٹ گئی ہے سبھی کے خلوص کی چادر
یہ جذبہ پہلے تو اس درجہ پائمال نہ تھا
خموش سنتے رہے سب امیر شہر کا حکم
کسی کے لب پہ کوئی حرف اشتعال نہ تھا
غزل
تمام شہر میں اس جیسا خستہ حال نہ تھا
فاروق بخشی