EN हिंदी
تمام شہر میں کوئی بھی روشناس نہ تھا | شیح شیری
tamam shahr mein koi bhi ru-shanas na tha

غزل

تمام شہر میں کوئی بھی روشناس نہ تھا

ظفر صدیقی

;

تمام شہر میں کوئی بھی روشناس نہ تھا
خطا یہی تھی کہ لہجہ پر التماس نہ تھا

پھر اس نے کس لیے رکھے ہوا پہ اپنے قدم
وہ گرد گرد تھا سوکھے لبوں کی پیاس نہ تھا

میں اپنے آپ لٹا آسماں کی خواہش سے
زمیں کا چہرہ مری نیند سے اداس نہ تھا

یہ کس نے آنکھ کو ننگا کیا ہے دریا میں
مہکتی ریت پہ کوئی بھی بے لباس نہ تھا

اداس ہو کے سجا کارنس کے پتھر پر
زمیں پہ ٹوٹ کے گرتا میں وہ گلاس نہ تھا