EN हिंदी
تمام رنگ ہوا ہو گئے کہانی سے | شیح شیری
tamam rang hawa ho gae kahani se

غزل

تمام رنگ ہوا ہو گئے کہانی سے

جالب نعمانی

;

تمام رنگ ہوا ہو گئے کہانی سے
زمین کانپ رہی ہے اترتے پانی سے

وہ اک پرندۂ آتش جو آگ پیتا تھا
اسیر ہو گیا اپنی ہی خوش بیانی سے

شکار چھپ گئے اپنی پناہ گاہوں میں
کمان ٹوٹ گئی اس کی کھینچا تانی سے

جو کھیل کھیل رہے تھے ہواؤں کی شہ پر
وہ کھیل ختم ہوا مرگ ناگہانی سے

خود اپنے آپ سے لرزاں رہی الجھتی رہی
اٹھا نہ بار گراں رات کی جوانی سے

ورق ورق پہ چلا تیشۂ قلم لیکن
نہ کوئی لفظ جدا ہو سکا معانی سے