تمام رنگ ہوا ہو گئے کہانی سے
زمین کانپ رہی ہے اترتے پانی سے
وہ اک پرندۂ آتش جو آگ پیتا تھا
اسیر ہو گیا اپنی ہی خوش بیانی سے
شکار چھپ گئے اپنی پناہ گاہوں میں
کمان ٹوٹ گئی اس کی کھینچا تانی سے
جو کھیل کھیل رہے تھے ہواؤں کی شہ پر
وہ کھیل ختم ہوا مرگ ناگہانی سے
خود اپنے آپ سے لرزاں رہی الجھتی رہی
اٹھا نہ بار گراں رات کی جوانی سے
ورق ورق پہ چلا تیشۂ قلم لیکن
نہ کوئی لفظ جدا ہو سکا معانی سے
غزل
تمام رنگ ہوا ہو گئے کہانی سے
جالب نعمانی