تمام رات پڑی تھی کہ دن نکل آیا
ابھی تو آنکھ لگی تھی کہ دن نکل آیا
یقیں ہو پختہ تو پھر شب بدل بھی سکتی ہے
یہ بات اس نے کہی تھی کہ دن نکل آیا
یہ معجزہ بھی ہمیں پر تمام ہونا تھا
وہ بس ذرا سا ہنسی تھی کہ دن نکل آیا
میں دن نکلنے کا ویسے بھی منتظر تھا بہت
یہ جان خواب ہوئی تھی کہ دن نکل آیا
سحر سے پہلے بھلا دن کہاں نکلتا ہے
ذرا سی بات بنی تھی کہ دن نکل آیا
ذرا سا درد ہوا تھا کہ دل چمک اٹھا
ذرا سی صبح ہوئی تھی کہ دن نکل آیا
کریں جو غور یہی ہے نظام قدرت طورؔ
یہ رات ختم ہوئی تھی کہ دن نکل آیا
غزل
تمام رات پڑی تھی کہ دن نکل آیا
کرشن کمار طورؔ

