تمام رات بجھیں گے نہ میرے گھر کے چراغ
کہ یہ چراغ ہیں خون دل و جگر کے چراغ
ان آنسوؤں کو ستارے سلام کرتے ہیں
بجھا سکو تو بجھا دو یہ چشم تر کے چراغ
ہوا نہ ایسا چراغاں کبھی سر مقتل
ہتھیلیوں پہ ہیں روشن بریدہ سر کے چراغ
انہیں پہ چلنے سے منزل ملے گی ہم سفرو
یہ نقش پا ہیں کسی کے کہ رہ گزر کے چراغ
اس انجمن میں اجالا رہے گا صدیوں تک
جلا رہا ہوں مسلسل دل و نظر کے چراغ
یہ لال قلعہ یہ دیوار چیں یہ تاج محل
یہ سب کے سب ہیں جلائے ہوئے بشر کے چراغ
حبابؔ شہر سبا میں وہ قمقموں کی بہار
گلی گلی میں فروزاں تھے سیم و زر کے چراغ
غزل
تمام رات بجھیں گے نہ میرے گھر کے چراغ
حباب ترمذی