تمام رات آنسوؤں سے غم اجالتا رہا
میں غم اجال اجال کر خوشی میں ڈھالتا رہا
جوان میری ہمتیں بلند میرے حوصلے
حصار توڑتا رہا کمند ڈالتا رہا
بہت ہی تلخ تجربہ تمہاری بزم میں ہوا
ہر آدمی مری انا کے بل نکالتا رہا
ہیں التوا کی گود کے پلے سب اس کے مسئلے
کسی کو حل نہیں کیا ہمیشہ ٹالتا رہا
ترے خلاف اس لیے مری زباں نہ کھل سکی
میں اپنی خامیوں پہ بھی نگاہ ڈالتا رہا
خیال یار تیری نگہداشت اس طرح ہوئی
دماغ تھک کے سو گیا تو دل سنبھالتا رہا
حفیظؔ کیا سناؤں اپنی خواہشوں کی داستاں
پلا پلا کے دودھ کتنے سانپ پالتا رہا
غزل
تمام رات آنسوؤں سے غم اجالتا رہا
حفیظ میرٹھی