EN हिंदी
تمام پھول سے چہروں کی سرخیاں اڑ جائیں | شیح شیری
tamam phul se chehron ki surKHiyan uD jaen

غزل

تمام پھول سے چہروں کی سرخیاں اڑ جائیں

رئیس انصاری

;

تمام پھول سے چہروں کی سرخیاں اڑ جائیں
اگر چمن سے یہ خوش رنگ تتلیاں اڑ جائیں

وہ بے وفا بھی ہے مغرور بھی ہے پتھر بھی
اسے تراشنے بیٹھوں تو چھینیاں اڑ جائیں

یہ حوصلہ ہے ہمارا کہ اب بھی روشن ہیں
ہوا کی زد پہ رہو تم تو ٹوپیاں اڑ جائیں

بھرا ہوا ہے وہ بارود میرے سینے میں
اگر کوئی مجھے چھو لے تو دھجیاں اڑ جائیں