تمام خوشیاں تمام سپنے ہم ایک دوجے کے نام کر کے
نبھائیں الفت کی ساری رسمیں وفاؤں کا اہتمام کر کے
نہ دور دل سے کبھی تو جانا دل و جگر میں مقام کر کے
پیالۂ عشق الٹ نہ دینا اے ساقیا مے بجام کر کے
رہی نہ مجھ میں سکت ذرا بھی کہ ظلم تیرے سہوں مسلسل
ملے گا کیا تجھ کو اے ستم گر غموں کا یوں ازدحام کر کے
میں ان کی نظروں کے تیر کھا کر تڑپ رہا ہوں یہاں پہ لیکن
وہ کتنے بے فکر لگ رہے ہیں سکون میرا حرام کر کے
مٹانی ہے جو دلوں کی دوری تو فلسفہ ہے یہ آزمودہ
چراغ الفت جلائیں ہم تم دلوں کی نفرت کو رام کر کے
مسرتوں کے حصول کا ہے جہاں میں بس اک یہی طریقہ
کہ سادگی سے نباہ کر لو طلب کے جن کو غلام کر کے
جہان دل کی اس اضطراری سے باہر آ کر چلو چلیں شادؔ
خوشی کی محفل کو پھر سجائیں اداسیوں کو حرام کر کے
غزل
تمام خوشیاں تمام سپنے ہم ایک دوجے کے نام کر کے
شمشاد شاد