تلوار بنو درد کے مارے ہوئے لوگو
یوں ہار کے بیٹھو نہیں ہارے ہوئے لوگو
ہمت ہو تو تعبیریں بھی کرتی ہیں عنایت
آنکھوں میں چلو خواب سنوارے ہوئے لوگو
تم مٹی ہو مٹی کو حقارت سے نہ دیکھو
اے عرش معلی سے اتارے ہوئے لوگو
محتاج اسی در کے ہیں حاکم کہ غنی ہوں
جاؤ نہ کہیں ہاتھ پسارے ہوئے لوگو
صحرا سے چلے آ بھی گئے دار و رسن تک
ہونا تھا جنہیں وہ نہ ہمارے ہوئے لوگو
یاروں نے انیسؔ اپنے نباہی نہیں یاری
میٹھے تھے جو دریا وہی کھارے ہوئے لوگو
غزل
تلوار بنو درد کے مارے ہوئے لوگو
انیس دہلوی