ٹلتے ہیں کوئی ہاتھ چلے یا زباں چلے
ہم داد خواہ ساتھ ہیں اس کے جہاں چلے
کیا ہم سری ہو تیر کی اس تیر آہ سے
یہ یہ ہی تیر ہے کہ سدا بے کماں چلے
سر پہ تو دھر کے نعش ہماری کو تا مزار
ہر اک قدم پہ روتے ہوئے خوں فشاں چلے
لائے تھے سر پہ دھر کے کس اخلاص سے ہمیں
بس آنکھ اوجھل ہوتے ہی اے دوستاں چلے
یاروں نے اپنی راہ لی فدویؔ ہمیں رہے
وہ چیز اب کہاں ہے کہ پوچھے کہاں چلے

غزل
ٹلتے ہیں کوئی ہاتھ چلے یا زباں چلے
فدوی لاہوری