تلخیٔ نو شکرآمیز ہوئی جاتی ہے
زندگی اور دل آویز ہوئی جاتی ہے
کس نے لفظوں پہ یہ چپکے سے کمندیں پھینکیں
جو زباں ہے وہ کم آمیز ہوئی جاتی ہے
دست قاتل میں نظر آتی ہے اک شاخ گلاب
زندگی پھر بھی تو خوں ریز ہوئی جاتی ہے
محمل وقت میں روشن ہیں فراست کے چراغ
پھر بھی اوہام کی لو تیز ہوئی جاتی ہے
جب سے گلفام نگارش ہوئے غالب کے خطوط
شاخ تحریر بھی گل ریز ہوئی جاتی ہے
تشنگی بن کے چھلک جائیں نہ الفاظ کہیں
گفتگو ہونٹوں پہ لبریز ہوئی جاتی ہے
اب دھندلکوں کے سہارے ہیں غنیمت مطربؔ
روشنی فطرت چنگیز ہوئی جاتی ہے

غزل
تلخیٔ نو شکرآمیز ہوئی جاتی ہے
مطرب نظامی