تلخابۂ غم خندہ جبیں ہو کے پئے جا
موہوم امیدوں کے سہاروں پہ جئے جا
مایوس نہ ہو بے رخیٔ چشم جہاں سے
شائستہ احساس کوئی کام کیے جا
شکوہ نہ کر اس دور جنوں زاد کا کوئی
تقدیر خرد سوز کو الزام دیے جا
اوروں کو گریباں کی تجھے فکر ہی کیوں ہو
تو اپنی ہی صد چاکی داماں کو سیے جا
ہر لمحہ تغیر پہ نگاہوں کو جمائے
تو جائزۂ گردش ایام لیے جا
اس جبر مشیت کو تو سہنا ہی پڑے گا
بے کیف سہی ان کے اشاروں پہ جئے جا
ساقی کی نظر سے کوئی نسبت ہے تو انورؔ
پینے کی ادا یہ بھی ہے بے جام پئے جا
غزل
تلخابۂ غم خندہ جبیں ہو کے پئے جا
انور صابری