تلاطم خیز منظر ہو گئی ہیں
مری آنکھیں سمندر ہو گئی ہیں
اڑانا چاہتی ہیں خاک میری
ہوائیں بھی ستم گر ہو گئی ہیں
تری مہکی ہوئی زلفوں کو چھو کر
گھٹائیں روح پرور ہو گئی ہیں
ہوائے گرم تیری شعلگی سے
زمینیں جل کے پتھر ہو گئی ہیں
اجالے بڑھ رہے ہیں میری جانب
دعائیں بار آور ہو گئی ہیں
ترے جلووں کی تابانی سلامت
مری شامیں منور ہو گئی ہیں
یہی غم ہے کہ ناظرؔ میری آہیں
نکل کر گھر سے باہر ہو گئی ہیں
غزل
تلاطم خیز منظر ہو گئی ہیں
ناظر صدیقی