تلاطم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے
کہ بہر مصلحت اب مستقر ہے
در صیاد پر برپا ہے ماتم
قفس میں جب سے ذکر بال و پر ہے
تکلم کا کرشمہ اب دکھا دو
تمہاری خامشی میں شور و شر ہے
کروں کیا آرزوئے سرفرازی
کہ جب نیزے پہ ہر پل میرا سر ہے
ملی مہلت تو دل میں جھانک لوں گا
ابھی تو ذہن پر میری نظر ہے
چڑھے دریا میں ٹوٹی ناؤ کھینا
کہانی زندگی کی مختصر ہے
اگر سودا رہے سر میں تو ارشدؔ
ہر اک دیوار کے سینے میں در ہے
غزل
تلاطم ہے نہ جاں لیوا بھنور ہے
ارشد کمال