EN हिंदी
تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا | شیح شیری
taklif miT gai magar ehsas rah gaya

غزل

تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا

عبد الحمید عدم

;

تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا
خوش ہوں کہ کچھ نہ کچھ تو مرے پاس رہ گیا

پل بھر میں اس کی شکل نہ آئی اگر نظر
یک دم الجھ کے رشتۂ انفاس رہ گیا

فوٹو میں دل کی چوٹ نہ تبدیل ہو سکی
نقلیں اتار اتار کے عکاس رہ گیا

وہ جھوٹے موتیوں کی چمک پر پھسل گئی
میں ہاتھ میں لیے ہوئے الماس رہ گیا

اک ہم سفر کو کھو کے یہ حالت ہوئی عدمؔ
جنگل میں جس طرح کوئی بے آس رہ گیا