تخلیق کے پردے میں ستم ٹوٹ رہے ہیں
آزر ہی کے ہاتھوں سے صنم ٹوٹ رہے ہیں
ڈھائی کہیں جاتی ہے جو تعمیر محبت
محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں
سلجھے نہ مسائل غم و افلاس کے لیکن
تفسیر مسائل میں قلم ٹوٹ رہے ہیں
بے فیض گزر جاتے ہیں گلشن سے ہمارے
موسم کے بھی اب قول و قسم ٹوٹ رہے ہیں
رقاص شبستان ہوس تجھ کو خبر ہے
آئینے ترے زیر قدم ٹوٹ رہے ہیں
رات اور جواں ہو تو اجالا ہو فضا میں
پلکوں سے ستارے ابھی کم ٹوٹ رہے ہیں
بے دار ہوئے جاتے ہیں ایجاد کے شعلے
ہر لحظہ طلسمات عدم ٹوٹ رہے ہیں
اللہ رے کشش اس نگہ زہد شکن کی
مرکز سے غزالان حرم ٹوٹ رہے ہیں
اللہ کے ہوتے مجھے کیوں فکر ہو کوثرؔ
بندوں کے جو آئین کرم ٹوٹ رہے ہیں
غزل
تخلیق کے پردے میں ستم ٹوٹ رہے ہیں
کوثر جائسی