EN हिंदी
طے ہوا ہے اس طرف کی رہ گزر کا جاگنا | شیح شیری
tai hua hai us taraf ki rahguzar ka jagna

غزل

طے ہوا ہے اس طرف کی رہ گزر کا جاگنا

نبیل احمد نبیل

;

طے ہوا ہے اس طرف کی رہ گزر کا جاگنا
میرے پاؤں میں کسی لمبے سفر کا جاگنا

بولتے تھے کیا پرندے سے در و دیوار پر
یاد ہے اب بھی مجھے وہ اپنے گھر کا جاگنا

اب کہاں موسم ہے وہ دار و رسن کا دوستو
اب کہاں عشاق کے شانوں پہ سر کا جاگنا

ورنہ مجھ کو دھوپ کا صحرا کبھی نہ چھوڑتا
آ گیا ہے کام میرے اک شجر کا جاگنا

اک پرانی آرزو ٹھہری اجالوں کی طلب
اک پرانا خواب ٹھہرا ہے سحر کا جاگنا

آسماں کھلتے گئے مجھ پر زمینوں کی طرح
ایک لمحے کے لیے تھا بال و پر کا جاگنا

میں نبیلؔ اس خوف سے اک عمر سویا ہی نہیں
زندگی بھر کا ہے سونا لمحہ بھر کا جاگنا