ٹہنیاں پھولوں کو ترسیں گی یہاں تیرے بعد
وادیٔ جھنگ سے اٹھے گا دھواں تیرے بعد
لاڈلے شیشموں کی بھاگ بھری شاخوں سے
کونپلیں پھوٹیں گی بن بن کے فغاں تیرے بعد
دھندلی دھندلی نظر آئیں گی سہانی راتیں
ہچکیاں لے گا ''ترمّوں'' کا سماں تیرے بعد
ناگ بن جائیں گی پانی کی شرابی لہریں
آگ پھیلائے گا سیلاب چنہاں تیرے بعد
کون ''بیلے'' میں دل زار کو بہلائے گا
کون دے گا مری آہوں کو اماں تیرے بعد
''ماہیا'' گائیں گی کونجیں لب دریا لیکن
ان کی سنگیت میں وہ بات کہاں تیرے بعد
غزل
ٹہنیاں پھولوں کو ترسیں گی یہاں تیرے بعد
شیر افضل جعفری