تہجد میں وہ رنگ و بو رات بھر
خدا سے رہی گفتگو رات بھر
جو خوابوں میں لہرائے پھولوں کے جام
مہکتے رہے بے سبو رات بھر
ہوا جو سر شام دل پاش پاش
کیا تار غم سے رفو رات بھر
وہ تنہائی کا خوبصورت ہجوم
وہ میلہ سر آب جو رات بھر
چمکتے رہے آنسوؤں کے چراغ
کیا یاد انہیں با وضو رات بھر
یہ کمرے سے کیسی مہک آئی تھی
وہاں تو نہ تھے میں نہ تو رات بھر
تمہیں نورؔ خوشبو نے ڈھونڈا بہت
کہاں تم رہے اے گرو رات بھر
غزل
تہجد میں وہ رنگ و بو رات بھر
نور تقی نور