تہہ میں جو رہ گئے وہ صدف بھی نکالئے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالیے
اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالیے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
اب صرف پتیوں کو ہوا میں اچھالیے
صدیوں کا فرق پڑتا ہے لمحوں کے پھیر میں
جو غم ہے آج کا اسے کل پر نہ ٹالیے
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے
کہہ دو صلیب شب سے کہ اپنی منائے خیر
ہم نے تو پھر چراغ سروں کے جلا لیے
دنیا کی نفرتیں مجھے قلاش کر گئیں
اک پیار کی نظر مرے کاسے میں ڈالیے
محسوس ہو رہا ہے کچھ ایسا مجھے قتیلؔ
نیندوں نے جیسے آج کی شب پر لگا لیے
غزل
تہہ میں جو رہ گئے وہ صدف بھی نکالئے
قتیل شفائی