EN हिंदी
تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی | شیح شیری
tah-e-girdab to bachna mera dushwar hai phir bhi

غزل

تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی

پروین شیر

;

تہ گرداب تو بچنا مرا دشوار ہے پھر بھی
کنارے دور ہیں ٹوٹی ہوئی پتوار ہے پھر بھی

تھکن سے چور ہوں، سر رکھ دیا ہے اس کے سینے پر
مجھے معلوم ہے یہ ریت کی دیوار ہے پھر بھی

متاع رشتۂ جاں کاروبار منفعت کب تھی
خریداروں کے حلقے میں سر بازار ہے پھر بھی

مری مٹھی میں نازک پنکھڑی محفوظ رہتی ہے
بچانا سنگ باری میں اسے دشوار ہے پھر بھی

ترے لہجے کی شبنم جذب کر دے کچھ نمی اس میں
اگرچہ دل سلگتی ریت کا انبار ہے پھر بھی

چراغ آرزو ہے منتظر دہلیز پر میری
وہ دوری کے دھندلکوں میں بہت لاچار ہے پھر بھی

سمندر تشنگی کا اب سراب عشق میں ضم ہے
شکستہ حال میرا شیشۂ پندار ہے پھر بھی

یہ مٹی چاک پر تھمتی نہیں ہے، اتنی گیلی ہے
کٹھن یہ مرحلہ ہے، کوزہ گر لاچار ہے پھر بھی