تہہ بدن کہیں بیدار ہوتا جاتا ہوں
وہ پاس آتا ہے جتنا میں سوتا جاتا ہوں
زمین نکلی چلی جا رہی ہے ہاتھوں سے
میں آسمان محبت میں کھوتا جاتا ہوں
ادھر وہ مجھ سے گریزاں ہے مجھ پہ ہنستے ہوئے
ادھر میں اس کے تعاقب میں روتا جاتا ہوں
ہر ایک لمحہ بناتے ہیں مجھ کو ہاتھ اس کے
وہ کرتا جاتا ہے مجھ کو میں ہوتا جاتا ہوں
میں کائنات کا مزدور اشرف مخلوق
کوئی بھی کام ہو اک میں ہی جوتا جاتا ہوں
بدن کی خاک تو اڑ جائے گی ہوا میں کہیں
مگر وہ پیڑ رہیں گے جو بوتا جاتا ہوں
وہ تیغ کثرت معنی لگی تخلص کو
کہ دو دو فرحتؔ و احساسؔ ہوتا جاتا ہوں
غزل
تہہ بدن کہیں بیدار ہوتا جاتا ہوں
فرحت احساس